بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ و الصلاۃ والسلام على رسولہ و آلہ و صحبہ، وبعد:
ماہ و سال لیل و نہار اور وقت کے ایک ایک لحے کے خالق اللہ رب العزت ہیں ۔اللہ نے کسی دن یا کسی گھری کو منحوس قرار نہیں دیا ۔ ہاں جو حادثہ یا واقعہ تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے وہ ہو کر ہی رہنا ہے۔اگر کسی دن کوئی حادثہ یا غمناک واقعہ رونما ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہرگزنہیں کہ وہ منحوس ہے۔اصل میں یہ توہمانہ خیالات غیر مسلم اقوام کے ذریعے اسلام میں داخل ہوئے ہیں ۔
مثلا ہندؤں کے ہاں شادی کرنے سے پہلے دن اور وقت متعیں کرنے کے لیے بنڈتوں* سے پوچھا جاتا ہے اگر وہ رات ساڑھے بارہ بجے کا وقت مقرر کر دے تو اسی وقت شادی کی جائے گی۔ اس قوت سے آگے ہیچھے کرنا بد فالی سمجھا جائے گا۔
اسی طرح مغربی دنیا میں 13 کے عدد کو منحوس سمجھا جاتاہے۔یہی فاسد خیالات مسلم قوم میں در آئے ہیں ۔اس لیے صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخوں کو منحوس سمجھا جاتا ہے ۔ان ابتدائی تاریخوں کو تیرہ تیزی کہتے ہیں ۔ ان کی نحوست کوزائل کرنے کے لیے مختلف عملیات کئے جاتے ہیں۔
یہ سب جہالت کی باتیں ہیں دین اسلام کے روشن صفحات اسی توہمات سے پاک ہیں اور دنوں میں سے کسی دن کو منحوس سمجھ کے شادی سے رک جانا کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ۔اس کی مثال یہ ہے کہ عرب والے شوال کے مہینے میں شادی نہیں کیا کرتے تھے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال باطل کو ختم کر کے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شوال کے مہینے میں شادی کی۔
چنانچہ ایک موقع پرسیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ
“میری شادی بھی شوال میں ہوئی اور رخصتی بھی شوال میں ہوئی ۔ اگر یہ منحوس ہے تو مجھ سے زیادہ نصیبے والی کون عورت ہے “
یعنی گھریلوزندگی مجھ سےزیادہ کامیاب کس نے گزاری؟
اس لیے مسلمانو قطعا آپ کو دل سے یہ بات نکال دینی چاہیے ماہ و سال میں کوئی دن منحوس بھی ہو سکتا
اور جو ایک روایت پیش کی جاتی ہے۔
یوم الاربعاءیوم نحس مستمر
“بدھ کا دن برقراررہنے والا منحوس دن ہے “
امام صاغانی اور ابن الجوزی نے اسےموضوع ( من گھڑت )قرار دیا ہے ۔ اسکی کوئی اصل نہیں ۔
بلکہ کسی دن یا کسی مہینے کومنحوس کہنا درحقیقت اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے اس زمانہ میں جو لیل و نہار پر مشتمل ہے نقص اور عیب لگانے کے مترادف ہے۔اور س چیز سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں روک دیا ہے:
“اللہ نے فرمایا !آدم کا بیٹا مجھے گالی دیتا ہے حالانکہ میں زمانہ ہوں ، میرے ہاتھ میں حکم ہے میں ہی دین اور رات کوبدلتا ہوں “
بخاری مسلم
معلوم ہوا کہ دن رات اللہ کے پیداکردہ ہیں کسی کو غیب دار ٹھرانا خالق و مالک کی کاریگری میں درحقیقت عیب لگانا ہے۔
ماہ و سال لیل و نہار اور وقت کے ایک ایک لحے کے خالق اللہ رب العزت ہیں ۔اللہ نے کسی دن یا کسی گھری کو منحوس قرار نہیں دیا ۔ ہاں جو حادثہ یا واقعہ تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے وہ ہو کر ہی رہنا ہے۔اگر کسی دن کوئی حادثہ یا غمناک واقعہ رونما ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہرگزنہیں کہ وہ منحوس ہے۔اصل میں یہ توہمانہ خیالات غیر مسلم اقوام کے ذریعے اسلام میں داخل ہوئے ہیں ۔
مثلا ہندؤں کے ہاں شادی کرنے سے پہلے دن اور وقت متعیں کرنے کے لیے بنڈتوں* سے پوچھا جاتا ہے اگر وہ رات ساڑھے بارہ بجے کا وقت مقرر کر دے تو اسی وقت شادی کی جائے گی۔ اس قوت سے آگے ہیچھے کرنا بد فالی سمجھا جائے گا۔
اسی طرح مغربی دنیا میں 13 کے عدد کو منحوس سمجھا جاتاہے۔یہی فاسد خیالات مسلم قوم میں در آئے ہیں ۔اس لیے صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخوں کو منحوس سمجھا جاتا ہے ۔ان ابتدائی تاریخوں کو تیرہ تیزی کہتے ہیں ۔ ان کی نحوست کوزائل کرنے کے لیے مختلف عملیات کئے جاتے ہیں۔
یہ سب جہالت کی باتیں ہیں دین اسلام کے روشن صفحات اسی توہمات سے پاک ہیں اور دنوں میں سے کسی دن کو منحوس سمجھ کے شادی سے رک جانا کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ۔اس کی مثال یہ ہے کہ عرب والے شوال کے مہینے میں شادی نہیں کیا کرتے تھے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال باطل کو ختم کر کے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شوال کے مہینے میں شادی کی۔
چنانچہ ایک موقع پرسیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ
“میری شادی بھی شوال میں ہوئی اور رخصتی بھی شوال میں ہوئی ۔ اگر یہ منحوس ہے تو مجھ سے زیادہ نصیبے والی کون عورت ہے “
یعنی گھریلوزندگی مجھ سےزیادہ کامیاب کس نے گزاری؟
اس لیے مسلمانو قطعا آپ کو دل سے یہ بات نکال دینی چاہیے ماہ و سال میں کوئی دن منحوس بھی ہو سکتا
اور جو ایک روایت پیش کی جاتی ہے۔
یوم الاربعاءیوم نحس مستمر
“بدھ کا دن برقراررہنے والا منحوس دن ہے “
امام صاغانی اور ابن الجوزی نے اسےموضوع ( من گھڑت )قرار دیا ہے ۔ اسکی کوئی اصل نہیں ۔
بلکہ کسی دن یا کسی مہینے کومنحوس کہنا درحقیقت اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے اس زمانہ میں جو لیل و نہار پر مشتمل ہے نقص اور عیب لگانے کے مترادف ہے۔اور س چیز سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں روک دیا ہے:
“اللہ نے فرمایا !آدم کا بیٹا مجھے گالی دیتا ہے حالانکہ میں زمانہ ہوں ، میرے ہاتھ میں حکم ہے میں ہی دین اور رات کوبدلتا ہوں “
بخاری مسلم
معلوم ہوا کہ دن رات اللہ کے پیداکردہ ہیں کسی کو غیب دار ٹھرانا خالق و مالک کی کاریگری میں درحقیقت عیب لگانا ہے۔
Mon Oct 24, 2011 10:00 am by shah
» EK SHAKHS
Mon Oct 24, 2011 9:35 am by shah
» What is pyaar
Mon Oct 24, 2011 9:12 am by shah
» Where is everybody???
Sun Aug 14, 2011 10:53 am by Abbas_haider05
» Hani here
Sun Aug 14, 2011 10:53 am by Abbas_haider05
» Happy Ramadan
Wed Aug 10, 2011 4:48 pm by Hani
» Sab say bara sandwich
Wed Aug 10, 2011 4:37 pm by Hani
» asalamoalekum
Tue Mar 23, 2010 12:23 am by shahidsultanshah
» Har Gham Say Hifazat ہر غم سے حفاظت
Fri Apr 17, 2009 9:55 am by Mian Shahid