64. عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : مَا کَانَ لِعَلِيٍّ
اسْمٌ أحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أبِي التُّرَابِ، وَ إِنْ کَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا
دُعِيَ بِهَا. فَقَالَ لَهُ : أخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ. لِمَ سُمِّيَ أبَا
تُرَابٍ؟ قَالَ : جَاءَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَيْتَ فَاطِمَة،
فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ. فَقَالَ أيْنَ ابْنُ عَمِّکِ؟ فَقَالَتْ :
کَانَ بَيْنِي وَ بَيْنَهُ شَيْيئٌ. فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي.
فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لإِنْسَانٍ : انْظُرْ أيْنَ هُوَ؟
فَجَاءَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ. فَجَاءَ هُ
رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَآؤُهُ
عَنْ شِقِّهِ فَأصَابَهُ تُرَابٌ. فَجَعَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم
يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَ يَقُوْلُ : قُمْ أبَا التُّرَابِ. قُمْ أبَا التُّرَابِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
’’حضرت ابوحازم حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے
ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب سے بڑھ کر کوئی نام محبوب نہ تھا، جب
انہیں ابو تراب کے نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ راوی نے ان سے کہا : ہمیں
وہ واقعہ سنائیے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا نام ابو تراب کیسے رکھا گیا؟ انہوں نے
فرمایا : ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے
گھر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر میں نہیں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : تمہارا چچازاد کہاں ہے؟ عرض کیا : میرے اور ان کے درمیان کچھ بات
ہوگئی جس پر وہ خفا ہو کر باہر چلے گئے اور گھر پر قیلولہ بھی نہیں کیا۔ حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص سے فرمایا : جاؤ تلاش کرو وہ کہاں ہیں؟ اس
شخص نے آ کر خبر دی کہ وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
دیکھا کہ وہ لیٹے ہوئے ہیں جبکہ ان کی چادر ان کے پہلو سے نیچے گر گئی تھی اوران کے
جسم پر مٹی لگ گئی تھی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک سے
وہ مٹی جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے : اے ابو تراب (مٹی والے)! اٹھو، اے ابو تراب
اٹھو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔
الحديث رقم64 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المساجد، باب
: نوم الرجال في المسجد، 1 / 169، الرقم : 430، وفي کتاب الاستئذان، باب : القائلة
في المسجد، 5 / 2316، الرقم : 5924، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب :
من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1874، الرقم : 2409، والحاکم في المستدرک، 1 / 211،
والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 446، الرقم : 4137.
188 / 65. عَنْ سَلَمَة قَالَ : کَانَ عَلِيٌّ قَدْ تَخَلَّفَ
عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فِي خَيْبَرَ، وَکَانَ بِهِ رَمَدٌ،
فَقَال : أنَا أتَخَلَّفُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَخَرَجَ
عَليٌّ فَلَحِقَ بِالنَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم، فَلَمَّا کَانَ مَسَائُ
اللَّيْلَة الَّتِي فَتَحَهَا اﷲُ فِي صَبَاحِهَا، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله
عليه وآله وسلم : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَة أوْ لَيَأخُذَنَّ الرَّايَة غَداً رَجُلٌ
يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ، أوْ قَالَ : يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ، يَفْتَحُ اﷲُ
عَلَيهِ. فَإِذَا نَحْنُ بِعَلِيٍّ، وَمَا نَرْجُوْهُ، فَقَالُوْا : هَذَا عَلِيٌّ،
فَأعْطَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَفَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی
رضی اللہ عنہ آشوب چشم کی تکلیف کے باعث معرکۂ خیبر کے لیے (بوقت روانگی) مصطفوی
لشکر میں شامل نہ ہوسکے۔ پس انہوں نے سوچا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے پیچھے رہ گیا ہوں، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نکلے اور حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملے۔ جب وہ شب آئی جس کی صبح کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا
فرمائی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کل میں جھنڈا ایسے
شخص کو دوں گا یا کل جھنڈا وہ شخص پکڑے گا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں
یا یہ فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت
کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں خیبر کی فتح سے نوازے گا۔ پھر اچانک ہم نے حضرت
علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا، حالانکہ ہمیں ان کے آنے کی توقع نہ تھی۔ پس حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھنڈا انہیں عطا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے
ہاتھوں فتح نصیب فرمائی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
الحديث رقم 65 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل
الصحابة، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 3 / 1357، الرقم : 3499، و في کتاب :
المغازي، باب : غزوة خيبر، 4 / 1542، الرقم : 3972، و في کتاب : الجهاد و السير، باب : ما قيل في لواء النبي صلي الله عليه وآله
وسلم، 3 / 1086، الرقم : 2812، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من
فضائل علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 4 / 1872، الرقم : 2407، و البيهقي في السنن
الکبري، 6 / 362، الرقم : 12837.
189 / 66. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله
عليه وآله وسلم أَمَرَ بِسَدِّ الْأبْوَابِ إِلاَّ بَابَ عَلِيٍّ. رَوَاهُ
التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے سوا مسجد میں
کھلنے والے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا
ہے۔
الحديث رقم 66 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب
: مناقب علي، 5 / 641، الرقم : 3732، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 115.
190 / 67. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
في رواية طويلة : قَالَ وَ سَدَّ أَبْوَابَ الْمَسْجِدِ غَيْرَ بَابِ عَلِيٍّ
فَقَالَ : فَيَدْخُلُ الْمَسْجِدَ جُنُبًا وَ هُوَ طَرِيقُهُ. لَيْسَ لَهُ طَرِيقٌ
غَيْرُهُ. رَوَاهُ أحْمَدُ.
’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی
اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
مسجد کے تمام دروازے بند کر دیئے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے اور آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی حالتِ جنابت میں بھی مسجد میں داخل ہوسکتا
ہے۔ کیونکہ یہی اس کا راستہ ہے اور اس کے علاوہ اس کے گھر کا کوئی اور راستہ نہیں
ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 67 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 330،
الرقم : 3062.
Mon Oct 24, 2011 10:00 am by shah
» EK SHAKHS
Mon Oct 24, 2011 9:35 am by shah
» What is pyaar
Mon Oct 24, 2011 9:12 am by shah
» Where is everybody???
Sun Aug 14, 2011 10:53 am by Abbas_haider05
» Hani here
Sun Aug 14, 2011 10:53 am by Abbas_haider05
» Happy Ramadan
Wed Aug 10, 2011 4:48 pm by Hani
» Sab say bara sandwich
Wed Aug 10, 2011 4:37 pm by Hani
» asalamoalekum
Tue Mar 23, 2010 12:23 am by shahidsultanshah
» Har Gham Say Hifazat ہر غم سے حفاظت
Fri Apr 17, 2009 9:55 am by Mian Shahid